Rights, duties and household responsibilities of married women according to Islam by Vickyquotes;
بیویاں گھر کے کام کاج کی ذمہ دار ہیں؟
پاکستان میں عموماجب لوگ اپنے بیٹے کا رشتہ ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ اعلی تعلیم یافتہ، خوبصورت، ویل آف ہونے کے ساتھ ساتھ لڑکی سگھڑ بھی ہو۔کیونکہ گھر اسے ہی سنبھالنا ہے۔ایک فیملی فرینڈنے، جو پروفیسر ہیں ان کے شوہر اور چار بیٹے ڈاکٹر ہیں، اپنے بیٹے کے رشتے کے لیے کسی لڑکی کا کہا میں نے ان سے پوچھا :” آپ کو کیسی لڑکی چاہیے؟” کہنے لگیں:” ڈاکٹر ہو، چھوٹی فیملی ہو سب بہن بھائی والدین ڈاکٹرز ہی ہوں، لڑکی پیاری بھی ہو اور گھر کے کام کاج کرنے والی بھی ہو۔اور فیملی ویل آف ہو تاکہ لڑکی کی سپورٹ نہ چاہیں۔” میں نے ان سے کہا کہ آج کل تو عام گھرانوں کی ڈگری ہولڈر بچیاں بھی گھر کے کام نہیں کرتیں تو ایک امیر گھر کی ڈاکٹر لڑکی کیسے کام کرے گی۔آپ میڈ رکھ لیجئے گا نا۔تو کہنے لگیں ہم نے بھی جاب کے ساتھ ساتھ سب کام کیے ہیں۔میرا جواب تھا آپ کا دور اور تھا آج کل کوئی ایسی لڑکی نہیں ملے گی۔
سوچیے ایک اعلی تعلیم یافتہ خاتون بھی یہ چاہتی ہیں کہ ان کی بہو جاب کے ساتھ ساتھ گھر کا سارا کام سسرال کی خدمت بھی کرے تو عام گھریلو خاتون کی تو پہلی شرط ہی یہی ہوتی ہے کہ بہو گھر میں قدم رکھتے ساتھ 24/7 سارے سسرال کی بے دام باندی بن جائے نہ تو خدمت کرتی تھکے نہ اجرت مانگے نہ تعریف چاہے۔اور اچھی بہو بننے کے چکر میں خواتین گھن چکر بن جاتی ہیں نہ تو شوہر کو وقت دے پاتی ہیں نہ ہی بچوں کو۔اور سونے پر سہاگہ یہ کہ غلام بن کر بھی کبھی انہیں سراہا نہیں جاتا۔ہمیشہ جلی کٹی ہی سننے کو ملتی ہیں۔
اسلام میں بہو بھابھی پر سارے سسرال کی خدمت کرنا فرض نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا… مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی ذمہ دار ہے۔” البخاری5200
یعنی عورت پر صرف شوہر اور بچوں کے کاموں کی ذمہ داری ہے۔
امام خطاطی بیان کرتے ہیں:
“جہاں تک مرد کی ذمہ داری اپنے گھر والوں پر ہےاس کا مطلب ہے ان کی نگرانی کرنا، ان کے معاملات کا انتظام کرنا اور ان کی نگہداشت اور صحبت کے حق کو پورا کرنا۔جہاں تک عورت کی ذمہ داری اس کے شوہر کے گھر پر ہےتو اس کا مطلب ہے اچھا انتظام۔ اس کے گھر کی دیکھ بھال میں اور اس کے زیر کفالت افراد، مہمانوں اور نوکروں کا خیال رکھنا۔” اعلام الحدیث 58
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طے کیا کہ آپ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر کے اندر کے کام کی ذمہ دار ہیں جب کہ ان کے شوہر علی رضی اللہ عنہ باہر کے کام کے ذمہ دار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ گھر کے باہر جو کچھ ہے اس کا معاوضہ ان سے لیا جائے۔”مصنف ابن ابی شیبہ، 29677
یعنی غلام، لونڈی یا کوئی مددگار رکھا جا سکتا ہے۔
عابد السندی بتاتے ہیں کہ “گھر سے باہر کام” سے مراد “آگ کی لکڑی اور پانی جمع کرنا، اور دیکھ بھال کرنا، جب کہ “گھر کے اندر کام” سے مراد “پیسنا، پکانا اور گوندھنا” جیسی سرگرمیاں ہیں۔ طوالی الانوار، 6:410
فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے یہ کام اتنا مشکل تھا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ہاتھوں پر نشانات کی شکایت کی اور ایک لونڈی مانگی۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لونڈی سے بہتر ہے کہ سونے سے قبل تلاوت کرو۔ البخاری، 5361
ایک اور حدیث میں ہے:”
“اللہ سے ڈرو، فاطمہ، اپنے رب کا فرض پورا کرو اور اپنے گھر والوں کا کام کرو۔” ابوداؤد 2988
عابد السندی کا تبصرہ ہے کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ “ہر عورت کو کام کاج کرنا چاہیے” ۔طوالی الانوار 6:411
الہدایہ کے مصنف امام مرغینی یوں بیان کرتے ہیں:
“جب کوئی عورت خدمت کرنے والوں میں سے ہو تو اسے کھانا پکانا اور کام کرنے چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کے کام کاج فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے مختص کیے تھے۔” مختارات النواز 2:194
یعنی وہ بیویاں جو کہ اپنے میکے میں عام طور پر نوکرانی یا ملازم نہیں رکھتی ہیں انہیں گھر کا کام کرنا چاہیے۔ امام سراخسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”جو چیز اس پر نکاح کی وجہ سے واجب ہے وہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو شوہر کے حوالے کرنا ہے۔ اسے ایک مذہبی فریضہ کے طور پر اس کے علاوہ کام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حالانکہ اسے فقہی طور پر مجبور نہیں کیا جائے گا – جیسے جھاڑ پونچھ صفائی، کپڑے دھونا، کھانا پکانا اور اور اسی طرح بچے کی پرورش کرنا۔” المبسوط 5:209
دوسرے لفظوں میں جس طرح بچے کو دودھ پلانا ماں پر فرض ہے اسی طرح گھر کے کام کاج کرنا بھی اس پر فرض ہے۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
“زبیر نے مجھ سے اس وقت نکاح کیا جب ان کے پاس اونٹ اور گھوڑے کے علاوہ زمین پر کوئی مال و دولت نہیں تھا۔ نہ غلام تھا، نہ کوئی چیز تھی، چنانچہ میں ان کے گھوڑے کو چارہ کھلاتی، پانی نکالتی اور اس کے چمڑے کی بالٹی میں پیوند لگاتی اور آٹا گوندھتی۔میں کھانا پکانے میں اچھی نہیں تھی۔ میری انصار پڑوسی خواتین کھانا پکاتی تھیں۔میں زبیر کے باغ سے کھجور کی گٹھلیاں اپنے سر پر لایا کرتی تھی، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عطا فرمایا تھا۔ یہ گھر سے دو میل دور تھا۔ ایک دن
میرے سر پر کھجور کی گٹھلیاں تھے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی اور انصار کی ایک جماعت آپ کے ساتھ تھی۔
انہوں نے نے مجھے اپنے پیچھے بیٹھنے کے لیے کہا، ‘ بیٹھو!بیٹھو! مجھے مردوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے شرم آتی تھی اور مجھے زبیر کی حسد یاد آئی – وہ لوگوں میں سب سے زیادہ غیرت مند تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہچان لیا کہ میں شرمندہ ہوں اس لیے سفر جاری رکھا۔
میں زبیر کے پاس آئی اور ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ملے اور میرے سر پر کھجور کی گٹھلیاں تھے اور آپ کے ساتھیوں کی ایک جماعت آپ کے ساتھ تھی۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے اونٹ کو بیٹھا دیا۔ لیکن میں شرمندہ تھی اور تمہاری غیرت کو یاد کر رہی تھی۔ اس نے کہا: ‘خدا کی قسم، جو تم اپنے سر پر کھجور کی گٹھلیاں اٹھاتی ہو، میرے لیے اس سے زیادہ سخت ہے کہ تم اس کے ساتھ سوار ہو۔’ آخرکار ابوبکر نے اس کے بعد میرے پاس ایک نوکر بھیجا جس نے گھوڑے کا انتظام سنبھالا اور گویا انہوں نے مجھے آزاد کر دیا۔‘‘البخاری، 5224
یہ واقعہ حجاب کے فرض سے پہلے کا تھا فتح الباری، 11:675۔
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے ساتھ سوار ہونے کی دعوت دی۔
ایک اور روایت میں ہے اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: “میں زبیر کے گھر کا کام کرتی تھی…” صحیح مسلم، 5687
امام غزالی نے اپنی احیا میں بیویوں کو گھر کے کام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے یہ واقعہ نقل کیا ہے۔ احیاء علم الدین، 3:232-3
لیث بیان کرتے ہیں کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے گھر سے باہر جو کام کیایعنی گھوڑے کی دیکھ بھال اور کھجور کی گٹھلیاں لے جانا وہ ان کے لیے ضروری نہیں تھا بلکہ اضافی تھا۔ اکمال المعلم، 7:75
اہل صفہ میں سے ایک روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور اہل صفہ کی ایک جماعت کو اپنے گھر بلایا اور عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا :”ہمیں کھانا کھلاؤ” وہ ان کے پاس کچھ لے کر آئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مزید لاؤ۔”تو وہ تھوڑا سا اور لے آئیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ہمیں کچھ پلاو ۔” اور وہ دودھ کا ایک برتن لے آئیں۔ عبدالرزاق، 20712، مسند ابن ابی شیبہ، 607، سنن ابوداؤد، 5040
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کے ذریعے اپنے دانت صاف کرتے اور پھر اسے عائشہ رضی اللہ عنہا کو دھونے کے لیے دیتے۔ سنن ابوداؤد، 52ایک موقع پر آپ نے ان سے کہا کہ :”چھری لے آؤ اور اسے پتھر سے تیز کر دو۔” مسلم 5086 البتہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین اور اعلیٰ کردار کا حصہ تھا کہ آپ گھر کے کاموں میں مدد کرتے تھے۔ صحیح البخاری، 676انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
“(میرے سوتیلے باپ) ابو طلحہ کا ایک بیٹا ام سلیم سے مر گیا۔ماں نے کہا: ‘ابو طلحہ کو اس کے بیٹے کے بارے میں مت بتانا جب تک کہ میں اسے نہ بتاوں۔
ابو طلحہ آئے رات کا کھانا کھایا ۔ اس کے بعد ماں نے خود کو ان کے لیے سب سے زیادہ پرکشش انداز میں تیار کیا جو وہ کیا کرتی تھیں ۔ اس کے بعد انہوں نے ان کے ساتھ ہمبستری کی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ وہ مطمئن ہیں تو ان نے کہا: ‘ابو طلحہ!تمہارا کیا خیال ہے اگر کچھ لوگ کسی خاندان کو قرض دیں اور پھر قرض واپس کرنے کا مطالبہ کریں تو کیا وہ اسے روک سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ‘نہیں’۔ ماں نے کہا: ‘تو پھر اپنے بیٹے کی موت پر (صبر سے) اجر طلب کرو!’ وہ غصے سے بولے:” ‘تم نے مجھےناپاک کر دیا اور پھر مجھے میرے بیٹے کی موت کی خبر دی؟”
اس کے بعد وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ کو اس واقعہ کی خبر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘اللہ تعالیٰ نے تم دونوں کو گزشتہ رات برکت دی ہے۔’ اس کے بعد وہ حاملہ ہوئیں…” صحیح مسلم 6317
یہ روایات ظاہر کرتی ہیں کہ صحابہ کی فکر یہ تھی کہ اپنی ذمہ داریوں کو کس طرح بہتر طریقے سے ادا کریں اور اپنی شریک حیات کے بوجھ کو کم کریں۔ ان کی بنیادی فکر یہ نہیں تھی کہ ان کی شادی سے بہترین فائدہ کیسے حاصل کیا جائے بلکہ یہ تھی کہ کس طرح دینا اور حصہ ڈالنا ہے۔ چنانچہ ہم اسماء اور زبیر رضی اللہ عنہ کی مثال میں دیکھتے ہیں کہ اسماء کی فکر زبیر کے لیے تھی اور زبیر کی فکر اسماء کے لیے تھی۔ اور ام سلیم رضی اللہ عنہا کی مثال سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس طرح کا رویہ اعلی کردار کو ظاہر کرتا ہے اور برکت کا باعث ہے۔
اللہ قرآن میں کہتا ہے کہ مرد اپنی بیویوں کے محافظ ہیں ۔ 4:34۔
الجصاص وضاحت کرتے ہیں کہ یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ بیوی کو “(شوہر) کی اطاعت کرنی چاہیے اور اس کے حکم کو قبول کرنا چاہیے جب تک کہ یہ گناہ نہ ہو۔” احکام القرآن، 3:149
تاہم، یہ ذمہ داری ہر ایک جائز عمل میں نہیں ہوتی۔ بلکہ اسے ہر اس نیک کام میں اس کی اطاعت کرنی ہوگی جو ان حقوق سے مربوط ہے جو اس کے شوہر کی حیثیت سے اس پر ہیں یعنی جسمانی قربت اور گھریلو کاموں/خدمت سے متعلق معاملات میں۔
ان کے علاوہ اس پر اس کی اطاعت ضروری نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر اس نے اسے رات میں تہجد کی نماز میں مشغول ہونے، اختیاری روزے رکھنے یا قرآن حفظ کرنے کا کہا تو ان چیزوں کا کرنا اس پر فرض نہیں ہے۔ اسی طرح اگر وہ اسے کہے کہ وہ اپنا گھر بیچ دے تو اس پر ایسا کرنا واجب نہیں ہوگا۔ابن نجم اس کی وضاحت کرتے ہیں:
“بیوی پر واجب نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی ہر وہ بات مانے جو وہ اسے حکم دیتا ہے۔ یہ صرف ان چیزوں کے متعلق ہے جو شادی اور اس کے تعلق سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کی اطاعت اس وقت واجب نہیں جب اس کا حکم بیوی کو نقصان پہنچائے۔” البحر الرائق، 5:78
محمد قادری باشا لکھتے ہیں:
“شوہر پر بیوی کے واجبات میں سے یہ ہے کہ وہ ہر اس چیز میں اس کی اطاعت کرے جس کا وہ اسے حکم دیتا ہے۔ ازدواجی حقوق جب کہ شریعت میں جائز ہوں۔ الاحکام الشریعہ فی احوال الشخصیہ ص 80)
یعنی کہ اگر وہ قربت کے لمحات میں غیر اخلاقی یا غیر فطری تقاضہ کرے تو اطاعت واجب نہیں۔
عورتوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ گھر کے کام کاج کرنے اور اپنے شوہروں کی فرمانبرداری کرنے میں بڑا اجر ہے۔
عورت کے لیے اپنی ساس کی خدمت کرنا باعث اجر اور حسن کردار کا حصہ ہے۔ تاہم، یہ فرض نہیں ہے اور نہ ہی اس کا شوہر اسے ایسا کرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔
شریعت میں بیوی کی رہائش کی قسم اس کے پس منظر اور اس کے شوہر کی مالی حالت پر منحصر ہے۔ اگر بیوی ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور شوہر مالی طور پر خوشحال ہے تو وہ مکمل طور پر علیحدہ رہائش کا حقدار ہے جو اس کے سسرال سے الگ ہے۔ اگر وہ ایک اوسط پس منظر سے ہے اور شوہر مالی طور پر قابل ہے، تو وہ صرف ایک علیحدہ کمرے کا حقدار ہے ، اس کے ساتھ ایک باورچی خانہ اور باتھ روم بھی ہے جو اس کے خاندان کے کسی فرد کے ساتھ مشترکہ نہ ہو۔ اگر میاں بیوی دونوں غریب پس منظر سے ہوں تو اس کی ذمہ داری صرف ایک علیحدہ کمرہ فراہم کرنا ہے اور اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ باتھ روم اور کچن جیسی علیحدہ سہولیات فراہم کرے۔
جہاں تک آدمی کی اپنے خاندان کی دیکھ بھال کا تعلق ہے، تو یہ اس کی ذمہ داری ہے بیوی کی نہیں لیکن اگر بیوی اس کے والدین کی خدمت میں اس کی مدد کرے تو یہ بیوی کا احسان ہو گا۔لیکن دیور جیٹھ، نندوئی، اس کے خاندان کے دیگر مردوں کی خدمت بیوی پہ لازم نہیں کیونکہ وہ اس کے لیے نامحرم ہیں۔
ان تمام روایات، احادیث اور مفسرین کی آراء و تفسیر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بیوی پر شوہر کے گھر کے کام کی ذمہ داری ہے کیونکہ وہ اس کا کفیل ہے اسے گھر ، لباس، کھانا پینا اور دیگر ضروریات مہیا کرتا ہے۔اس لیے عورت کو اس کا اس کے بچوں اور گھر کا خیال رکھنا چاہیے ہے۔اگر مرد یا عورت صاحب استطاعت ہیں تو وہ کوئی نوکر رکھ سکتے ہیں۔جیسے کہ تمام ازدواج مطہرات کے پاس غلام اور لونڈیاں تھیں۔گھر سے باہر کے کام عورت کی ذمہ داری نہیں جیسے کی کما کر لانا ، اخراجات بانٹنا۔ ہاں بحالت مجبوری وہ باہر کے کام، بل ادا کرنا، بچوں کو اسکول لانا لے جانا، گروسری وغیرہ کر سکتی ہے۔لیکن اس کے لیے شوہر سے الگ سے معاوضہ بھی لے سکتی ہے۔سسرال کی خدمت بیوی پر فرض نہیں ۔اگر شوہر بیوی کا ہاتھ بٹائے یا اپنے کام خود کرے تو کوئی حرج نہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیک وقت نو ازدواج مطہرات تھیں۔مگر آپ اپنے کپڑے خود دھوتے تھے، جوتے گانٹھ لیتے تھے، دودھ دوہ لیتے تھے۔نہ صرف یہ بلکہ بیگمات کو سبزی بنا دیتے تھے، آگ جلا دیتے تھے، پانی بھر دیتے تھے، آٹا گوندھ دیتے تھے۔اور کبھی جو کھانا پکا ہوا نہ ہوتا تو بجائے غصہ کرنے کے روزہ رکھ لیتے تھے۔یہ نہیں فرماتے تھے کہ کیسی خواتین ہو نو بیویاں ہو کر ایک شوہر کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا خیال نہیں رکھ سکتیں۔مگر افسوس آج ہم صرف چار شادیوں ی سنت کو ہی یاد رکھتے ہیں اور مندرجہ بالا ساری سنتیں بھلا بیٹھے ہیں۔اگر ہم اپنی زندگی سنت کے مطابق نہیں گزار سکے تو اپنے بچوں کی تربیت ایسے ضرور کریں کہ وہ ان تمام احکام الہی اور سنتوں پر عمل پیرا ہو سکیں۔