Home Blog Page 3

Deep Understanding Sad Urdu Quotes

0

Very Deep Understand Sad Urdu Quotes 

دنیا کی سب سے بڑی کمزروی شرافت ہے۔۔ جس کا دائرہ اکثر کم ظرف لوگ اٹھاتے ہیں۔۔

کبھی تیرا مجھے چھوڑ جانا ناممکن ہوا کرتا تھا۔۔

کتنا مختصر سا ساتھ تھا تمہارا۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے حصے میں۔۔۔

نا ہم آئے نا تم آئے۔۔۔

Cristiano Ronaldo Beautiful Motivational Quotes

0
{"data":{"pictureId":"34f36f4ce376452295977650aae32979","appversion":"3.0.0","stickerId":"","filterId":"","infoStickerId":"","imageEffectId":"","playId":"","activityName":"","os":"android","product":"retouch","exportType":"image_export","editType":"image_edit"},"source_type":"vicut","tiktok_developers_3p_anchor_params":"{"source_type":"vicut","client_key":"aw889s25wozf8s7e","picture_template_id":""}"}

Cristiano Ronaldo Beautiful Motivational Quotes 

Cristiano Ronaldo is famous player of football.He is Most watched player of the world. Cristiano Ronaldo reflect his mindset on hardworking.

Here are some Motivational Quotes of Cristina Ronaldo.

 

“I’m living a dream I never want to wake up from.”

 

“Talent without working hard is nothing.”

 

“Your love makes me strong, your hate makes me unstoppable.”

 

Deep Sad Love Urdu Quotes

0

Very Sad and Deep Love Urdu Quotes 

ہمارا سب سے غلط گمان یہی ہوتا ہے کہ کوئی ہماری جگہ نہیں لے سکتا ۔۔

بار بار آنسوں صاف کرنے سے بہتر ہے کہ زندگی سے ہی اس کا صفایا کر دیا جائے جو آنسوؤں کا سبب بن رہا ہے ۔۔ بانو قدسیہ

جس دن ہم یہ سمجھ جائیں گے کہ سامنے والا غلط نہیں بلکہ صرف اس کی سوچ ہم سے الگ ہے تواس دن زندگی سے بہت دکھ ختم ہو جائیں گے۔۔

 

Jigar Moradabadi Beautiful Story about Hazrat Muhammad SAW

0

جگر مراد آبادی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی لازوال کہانی

*جگر مراد آبادی اور عشقِ رسول صلی اللّٰه علیہ وسلم*

 

قیامِ پاکستان سے پہلے کا واقعہ ہے٬ اجمیر میں نعتیہ مشاعرہ تھا۔ فہرست بنانے والوں کے سامنے یہ مشکل تھی کہ جگر مراد آبادی صاحب کو اس مشاعرے میں کیسے بلایا جائے، وہ کھلے رند تھے اور نعتیہ مشاعرے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی۔ اگر فہرست میں ان جیسے بڑے شاعر کا نام نہ رکھا جائے تو پھر مشاعرہ ہی کیا ہوا۔

 

منتظمین کے درمیان سخت اختلاف پیدا ہو گیا۔ کچھ ان کے حق میں تھے اور کچھ خلاف۔ دراصل جگر کا معاملہ تھا ہی بڑا اختلافی۔ بڑے بڑے شیوخ اور عارف باللّٰه اس کی شراب نوشی کے باوجود ان سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے لیکن لائقِ اصلاح۔ شریعت کے سختی سے پابند مولوی حضرات بھی ان سے نفرت کرنے کے بجائے افسوس کرتے تھے کہ ہائے کیسا اچھا آدمی کس بُرائی کا شکار ہے۔

 

عوام کے لئے وہ ایک اچھے شاعر تھے لیکن تھے شرابی۔ تمام رعایتوں کے باوجود مولوی حضرات بھی اور شاید عوام بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ وہ نعتیہ مشاعرے میں شریک ہوں۔ آخر کار بہت کچھ سوچنے کے بعد منتظمین مشاعرہ نے فیصلہ کیا کہ جگر صاحب کو مدعو کیا جانا چاہیے۔ یہ اتنا جرات مندانہ فیصلہ تھا کہ جگر صاحب کی عظمت کا اس سے بڑا اعتراف نہیں ہو سکتا تھا۔

 

جگر کو مدعو کیا گیا تو وہ سر سے پاؤں تک کانپ گئے۔ ”میں رند، سیہ کار، بد بخت اور نعتیہ مشاعرہ! نہیں صاحب نہیں۔“

 

اب منتظمین کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ جگر صاحب کو تیار کیسے کیا جائے۔ ان کی تو آنکھوں سے آنسو اور ہونٹوں سے انکار رواں تھا۔ نعتیہ شاعر حمید صدیقی نے انہیں آمادہ کرنا چاہا، ان کے مربی نواب علی حسن طاہر نے کوشش کی لیکن وہ کسی صورت تیار نہیں ہوتے تھے، بالآخر اصغر گونڈوی نے ان کے حکماً شرکت کا کہا تو وہ خاموش ہو گئے اور بات مان لی سرہانے بوتل رکھی تھی، اسے کہیں چھپا دیا، دوستوں سے کہہ دیا کہ کوئی ان کے سامنے شراب کا نام تک نہ لے۔

 

دِل پر کوئی خنجر سے لکیر سی کھینچتا تھا، وہ بے ساختہ شراب کی طرف دوڑتے تھے مگر پھر رُک جاتے تھے، مجھے نعت لکھنی ہے، شراب کا ایک قطرہ بھی حلق سے اترا تو کس زبان سے اپنے آقا علیہ السلام کی مدح لکھوں گا۔ یہ موقع ملا ہے تو مجھے اسے کھونا نہیں چاہیے، شاید یہ میری بخشش کا آغاز ہو۔ شاید اسی بہانے میری اصلاح ہو جائے، شاید مجھ پر اس کملی والے کا کرم ہو جائے، شاید خدا کو مجھ پر ترس آ جائے۔

 

ایک دن گزرا، دو دن گزر گئے، وہ سخت اذیت میں تھے۔ نعت کے مضمون سوچتے تھے اور غزل کہنے لگتے تھے، سوچتے رہے، لکھتے رہے، کاٹتے رہے، لکھے ہوئے کو کاٹ کاٹ کر تھکتے رہے، آخر ایک دن نعت کا مطلع ہو گیا۔ پھر ایک شعر ہوا، پھر تو جیسے بارشِ انوار ہو گئی۔ نعت مکمل ہوئی تو انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا۔

 

مشاعرے کے لئے اس طرح روانہ ہوئے جیسے حج کو جا رہے ہوں۔ کونین کی دولت ان کے پاس ہو۔ جیسے آج انہیں شہرت کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہو۔ انہوں نے کئی دن سے شراب نہیں پی تھی، لیکن حلق خشک نہیں تھا۔ ادھر تو یہ حال تھا دوسری طرف مشاعرہ گاہ کے باہر اور شہر کے چوراہوں پر احتجاجی پوسٹر لگ گئے تھے کہ ایک شرابی سے نعت کیوں پڑھوائی جا رہی ہے۔ لوگ بپھرے ہوئے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جگر صاحب کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے٬ یہ خطرہ بھی تھا کہ لوگ اسٹیشن پر جمع ہو کر نعرے بازی نہ کریں۔

 

ان حالات کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے جگر کی آمد کو خفیہ رکھا تھا۔ وہ کئی دن پہلے اجمیر پہنچ چکے تھے جب کہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ مشاعرے والے دن آئیں گے۔ جگر اپنے خلاف ہونے والی ان کارروائیوں کو خود دیکھ رہے تھے اور مسکرا رہے تھے۔ آخر مشاعرے کی رات آ گئی۔جگر کو بڑی حفاظت کے ساتھ مشاعرے میں پہنچا دیا گیا۔

 

”رئیس المتغزلین حضرت جگر مراد آبادی!“ اس اعلان کے ساتھ ہی ایک شور بلند ہوا، جگر نے بڑے تحمل کے ساتھ مجمع کی طرف دیکھا۔ ”آپ لوگ اپنی نفرت کا نشانہ کسے بنا رہے ہیں٬ مجھے یا خدانخواستہ اس نعت کو، جس کے پڑھنے کی سعادت مجھے ملنے والی ہے اور آپ سُننے کی سعادت سے محروم ہونا چاہتے ہیں۔“ مجمعے کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔

 

بس یہی وہ وقفہ تھا جب جگر کے ٹوٹے ہوئے دل سے یہ صدا نکلی ہے:

 

اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ

ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ —-

 

جو جہاں تھا ساکت ہو گیا۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی زبان سے شعر ادا ہو رہا ہے اور قبولیت کا پروانہ عطاء ہو رہا ہے۔ نعت کیا تھی گناہگار کے دِل سے نکلی ہوئی آہ تھی، خواہشِ پناہ تھی، آنسوؤں کی سبیل تھی، بخشش کا خزینہ تھی۔ وہ خود رو رہے تھے اور سب کو رُلا رہے تھے، دل نرم ہو گئے، اختلاف ختم ہو گئے، رحمتِ عالم کا قصیدہ تھا، بھلا غصے کی کھیتی کیونکر ہری رہتی۔

 

”یہ نعت اس شخص نے کہی نہیں ہے، اس سے کہلوائی گئی ہے۔“ مشاعرے کے بعد سب کی زبان پر یہی بات تھی۔ اس نعت کے باقی اشعار یوں ہیں:

 

دامان نظر تنگ و فراوانیِ جلوہ

اے طلعتِ حق طلعتِ سلطانِ مدینہ

 

اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق

تو خلد ہے تو جنت ِسلطان مدینہ

 

اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت

دیکھوں میں درِ دولتِ سلطانِ مدینہ

 

اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظرِ دید

صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ

 

کونین کا غم یادِ خدا ور شفاعت

دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ

 

ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی

یہ عالم شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ

 

اس امت عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا

نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ

 

کچھ ہم کو نہیں کام جگر اور کسی سے

کافی ہے بس اک نسبت ِسلطان مدینہ

 

جگر مراد آ بادی

 

Very Sad Love Poetry

0

Very Sad Love Poetry in Urdu

اسکے جذبوں میں تھا ہر شخص کا حصہ ورنہ۔۔

وہ کسی ایک کا ہوتا تو ہمارا ہوتا۔۔۔

 

یہ زلزلے یونہی بے سبب نہیں آتے ۔۔۔

تہہ خاک کوئی دیوانہ تڑپتا ہو گا۔۔

یاد ماضی عذاب ہے یارب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا ۔۔

 

Deep Sad Quotes in Urdu

0

Deep Sad Quotes in Urdu 

               

وہ غلطی سب سے بڑی غلطی ہے جس کے غلط ہونے کا احساس تک نہ ہو ۔۔

دادی اماں کہتی تھیں ۔۔۔ مرد کے دکھ بے زبان ہوتے ہیں بیٹا۔۔ وہ تو چار لوگوں میں بیٹھ کے رو بھی نہیں سکتا ۔۔

اپنے درد کا بھی سب سے پردہ رکھتا ہے۔۔

یہ ہنستا کھیلتا لڑکا کسی دن آہ بھر لے گا۔۔

لکھا جائے گا تختی پہ اداسی کھا گئی اسکو

Deep Sad Quotes in Urdu

0

Deep Sad Quotes in Urdu

تم فقط سن کر چیخ اٹھے ۔۔

ہم نے تو یوں زندگی گزاری ہے

زندگی بغیر ڈگری کے چل سکتی ہے ،زندگی ایک ہی کپڑے کو سو دفع پہن کہ گزاری جا سکتی ہے ،زندگی دو روٹیوں کی بجائے ایک روٹی کھا کر بھی چل سکتی ہے ،مگر زندگی بغیر عزت کے نہیں چل سکتی اس لیے ہمیشہ ایسے شخص کو چنو جو آپکی عزت اور قدر کر سکے ۔۔

زندگی میں ہر موقع کا فائدہ اٹھاؤ مگر کسی کے بھروسے کا نہیں ۔۔۔

 

 

A Meaningful Story of Sakarat in Urdu

0

سقراط اور ایک کمہار کی دلچسپ اور سبق آموز کہانی

سقراط روزانہ چہل قدمی کے لئے جایا کرتا تھا۔ اس راستے پر ایک کمہار کا گھر تھا، جو مٹی کے برتن بنایا کرتا تھا۔ وہ کمہار کے پاس جا کر بیٹھ جاتا اور اسے غور سے تکتا رہتا ۔ اسے برتن بننے کا عمل دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا ۔

ایک دن کمہار نے اس کی محویت دیکھ کر اپنے پاس بلایا اور پوچھا، “بیٹا ! تم یہاں سے روز گزرتے ہو اور میرے پاس بیٹھ کر دیکھتے رہتے ہو ، تم کیا دیکھتے ہو؟”

سقراط : میں آپ کو برتن بناتے دیکھتا ہوں اور یہ عمل دیکھنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے ۔ اس سے میرے ذہن میں چند سوال پیدا ہوئے ہیں ۔ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں۔

کمہار : یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔ تم پوچھو ، جو پوچھنا چاہتے ہو ۔

سقراط : آپ جو برتن بناتے ہیں ، اس کا خاکہ کہاں بنتا ہے؟

کمہار : اس کا خاکہ سب سے پہلے میرے ذہن میں بنتا ہے۔

یہ سن کر سقراط جوش سے بولا، میں سمجھ گیا ۔

کمہار نے حیرت سے پوچھا، کیا سمجھے؟

سقراط : یہی کہ ہر چیز تخلیق سے پہلے خیال میں بنتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خالق کے خیال میں ہم پہلے بن چکے تھے ، تخلیق بعد میں ہوئی ۔ اب میرا اگلا سوال یہ ہے کہ جب آپ برتن بنا رہے ہیں، تو ایسا کیا کرتے ہیں کہ یہ اتنا خوب صورت بنتا ہے؟

کمہار : میں اسے محبت سے بناتا ہوں۔ میں جو بھی چیز بناتا ہوں، اسے خلوص سے بناتا ہوں اور اسے بناتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتا ہوں تاکہ کوئی کمی کوتاہی نہ رہ جائے ۔

سقراط نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا، اس کی بھی سمجھ آ گئی، کیوں کہ بنانے والا ہم سے محبت کرتا ہے ، کیوں کہ اس نے ہمیں بنایا جو ہوتا ہے ۔ اگلا سوال یہ ہے کہ آپ اتنے عرصے سے برتن بنا رہے ہیں ، کوئی ایسی خواہش ہے ، جو آپ چاہتے ہیں کہ پوری ہو ۔

کمہار : ہاں ! ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ ایسا برتن بناؤں کہ دنیا عش عش کر اٹھے اور پھر ویسا برتن میں کبھی نہ بنا سکوں۔۔ کمہار نے حسرت سے کہا۔

یہ سنتے ہی سقراط اچھل پڑا۔ واہ ! خالق ہر بار ایسی تخلیق کرتا ہے کہ دنیا بے اختیار عش عش کر اٹھے ، کیوں کہ خالق کو پتا ہے کہ میں جو یہ انسان اس دنیا میں بھیج رہا ہوں ، اس جیسا کوئی اور دوبارہ نہیں آئے گا ۔۔

آپ یونیک ہیں ، اپنے ربّ کی بہترین تخلیق ۔ آپ کے خالق نے آپ کو بہترین بلکہ احسنِ تقویم سے خلق کیا ہے۔ اپنے آپ کو فضول دھندوں میں برباد نہ کریں ۔ لوٹ آئیں اپنے ربّ کی طرف، وہ تمہاری راہ تک رہا ہے۔♥️

Islamic Rabi Ul Awal Quotes

0

Beautiful Islamic Rabi Ul Awal Quotes 

                 

اے صبا مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دینا۔۔۔

غم کے مارے سلام کہتے ہیں ۔۔۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بعد میں آنے والے لوگوں میں بہت سے ایسے ہیں جو مجھ سے شدید محبت کرتے ہوں گے اور خواہش مند ہوں گے کہ کاش وہ اپنے سارے مال کے بدلے میری ایک جھلک دیکھ سکیں۔۔۔

میرے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر تا قیامت بلند رہے گا ۔۔۔

 

A True Story of Imam Masjid in London

0

برطانیہ کے شہر لندن میں لوگ عموماً پبلک ٹرانسپورٹ مطلب بسوں میں سفر کرتے ہیں۔۔‏کہا جاتا ہے کہ لندن کےایک امام صاحب روزانہ گھر سے مسجد جانے کیلئے بس پر سوار ہوتے۔

لندن میں لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔

 

ایک مرتبہ یہ امام بس پر سوار ہوئے، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر ایک نشست پر بیٹھ گئے۔

ڈرائیور کے دیئے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پینس زیادہ آگئے ہیں۔

 

پہلے امام صاحب نے سوچا کہ یہ20 پنس وہ اترتے ہوئےڈرائیور کو واپس کر دینگے کیونکہ یہ اُنکا حق نہیں بنتے۔

 

پھر سوچ آئی کہ اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے، ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، ان تھوڑے سے پیسوں سے اُنکی کمائی میں کیا فرق پڑے گا؟ میں ان پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر رکھ لیتا ہوں۔

 

اسی کشمکش میں کہ واپس کروں یا نہ کروں، امام صاحب کا سٹاپ آگیا۔

بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو 20 پنس واپس کرتے ہوئے کہا؛

 

یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے۔

ڈرائیور نے 20 پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛

کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟

 

میں بہت عرصہ سے آپ کی مسجد میں آ کر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا۔

 

یہ 20 پنس میں نے جان بوجھ کر آپکو زیادہ دیئے تھے تاکہ آپکا اس معمولی رقم کے بارے میں رویہ پرکھ سکوں۔

 

امام صاحب جیسے ہی بس سے نیچے اُترے، اُنہیں ایسے لگا جیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے، گرنے سے بچنےکیلئے ایک بجلی کے پول کا سہارا لیا، آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر روتے ہوئے دُعا کی،

یا اللہ مُجھے معاف کر دینا، میں ابھی ابھی اسلام کو بیس پنس میں بیچنے لگا تھا۔

 

یاد رکھئیے

بعض اوقات لوگ صرف قرآن پڑھ کر اسلام کے بارے میں جانتے ہیں۔

یا غیر مسلم ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کا تصور باندھتے ہیں۔

کوشش کریں کہ کہیں کوئی ہمارے شخصی اور انفرادی رویئے کو اسلام کی تصویر اور تمام مسلمانوں کی مثال نہ بنا لے.

اگر ہم کسی کو مسلمان نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنی کسی حرکت کی وجہ سے اسے اسلام سے متنفر بھی نہ کریں۔

آج کل کتابیں پڑھنے کا دور نہیں لوگ روئیے پڑھتے ہیں۔

کان خلقہ القرآن کا یہی مطلب ہے.

آللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے اللہ ہمیں ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ہمیں زیادہ سے زیادہ اسلام کی خدمت کی توفیق دے۔۔