جگر مراد آبادی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی لازوال کہانی

*جگر مراد آبادی اور عشقِ رسول صلی اللّٰه علیہ وسلم*

 

قیامِ پاکستان سے پہلے کا واقعہ ہے٬ اجمیر میں نعتیہ مشاعرہ تھا۔ فہرست بنانے والوں کے سامنے یہ مشکل تھی کہ جگر مراد آبادی صاحب کو اس مشاعرے میں کیسے بلایا جائے، وہ کھلے رند تھے اور نعتیہ مشاعرے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی۔ اگر فہرست میں ان جیسے بڑے شاعر کا نام نہ رکھا جائے تو پھر مشاعرہ ہی کیا ہوا۔

 

منتظمین کے درمیان سخت اختلاف پیدا ہو گیا۔ کچھ ان کے حق میں تھے اور کچھ خلاف۔ دراصل جگر کا معاملہ تھا ہی بڑا اختلافی۔ بڑے بڑے شیوخ اور عارف باللّٰه اس کی شراب نوشی کے باوجود ان سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے لیکن لائقِ اصلاح۔ شریعت کے سختی سے پابند مولوی حضرات بھی ان سے نفرت کرنے کے بجائے افسوس کرتے تھے کہ ہائے کیسا اچھا آدمی کس بُرائی کا شکار ہے۔

 

عوام کے لئے وہ ایک اچھے شاعر تھے لیکن تھے شرابی۔ تمام رعایتوں کے باوجود مولوی حضرات بھی اور شاید عوام بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ وہ نعتیہ مشاعرے میں شریک ہوں۔ آخر کار بہت کچھ سوچنے کے بعد منتظمین مشاعرہ نے فیصلہ کیا کہ جگر صاحب کو مدعو کیا جانا چاہیے۔ یہ اتنا جرات مندانہ فیصلہ تھا کہ جگر صاحب کی عظمت کا اس سے بڑا اعتراف نہیں ہو سکتا تھا۔

 

جگر کو مدعو کیا گیا تو وہ سر سے پاؤں تک کانپ گئے۔ ”میں رند، سیہ کار، بد بخت اور نعتیہ مشاعرہ! نہیں صاحب نہیں۔“

 

اب منتظمین کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ جگر صاحب کو تیار کیسے کیا جائے۔ ان کی تو آنکھوں سے آنسو اور ہونٹوں سے انکار رواں تھا۔ نعتیہ شاعر حمید صدیقی نے انہیں آمادہ کرنا چاہا، ان کے مربی نواب علی حسن طاہر نے کوشش کی لیکن وہ کسی صورت تیار نہیں ہوتے تھے، بالآخر اصغر گونڈوی نے ان کے حکماً شرکت کا کہا تو وہ خاموش ہو گئے اور بات مان لی سرہانے بوتل رکھی تھی، اسے کہیں چھپا دیا، دوستوں سے کہہ دیا کہ کوئی ان کے سامنے شراب کا نام تک نہ لے۔

 

دِل پر کوئی خنجر سے لکیر سی کھینچتا تھا، وہ بے ساختہ شراب کی طرف دوڑتے تھے مگر پھر رُک جاتے تھے، مجھے نعت لکھنی ہے، شراب کا ایک قطرہ بھی حلق سے اترا تو کس زبان سے اپنے آقا علیہ السلام کی مدح لکھوں گا۔ یہ موقع ملا ہے تو مجھے اسے کھونا نہیں چاہیے، شاید یہ میری بخشش کا آغاز ہو۔ شاید اسی بہانے میری اصلاح ہو جائے، شاید مجھ پر اس کملی والے کا کرم ہو جائے، شاید خدا کو مجھ پر ترس آ جائے۔

 

ایک دن گزرا، دو دن گزر گئے، وہ سخت اذیت میں تھے۔ نعت کے مضمون سوچتے تھے اور غزل کہنے لگتے تھے، سوچتے رہے، لکھتے رہے، کاٹتے رہے، لکھے ہوئے کو کاٹ کاٹ کر تھکتے رہے، آخر ایک دن نعت کا مطلع ہو گیا۔ پھر ایک شعر ہوا، پھر تو جیسے بارشِ انوار ہو گئی۔ نعت مکمل ہوئی تو انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا۔

 

مشاعرے کے لئے اس طرح روانہ ہوئے جیسے حج کو جا رہے ہوں۔ کونین کی دولت ان کے پاس ہو۔ جیسے آج انہیں شہرت کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہو۔ انہوں نے کئی دن سے شراب نہیں پی تھی، لیکن حلق خشک نہیں تھا۔ ادھر تو یہ حال تھا دوسری طرف مشاعرہ گاہ کے باہر اور شہر کے چوراہوں پر احتجاجی پوسٹر لگ گئے تھے کہ ایک شرابی سے نعت کیوں پڑھوائی جا رہی ہے۔ لوگ بپھرے ہوئے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جگر صاحب کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے٬ یہ خطرہ بھی تھا کہ لوگ اسٹیشن پر جمع ہو کر نعرے بازی نہ کریں۔

 

ان حالات کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے جگر کی آمد کو خفیہ رکھا تھا۔ وہ کئی دن پہلے اجمیر پہنچ چکے تھے جب کہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ مشاعرے والے دن آئیں گے۔ جگر اپنے خلاف ہونے والی ان کارروائیوں کو خود دیکھ رہے تھے اور مسکرا رہے تھے۔ آخر مشاعرے کی رات آ گئی۔جگر کو بڑی حفاظت کے ساتھ مشاعرے میں پہنچا دیا گیا۔

 

”رئیس المتغزلین حضرت جگر مراد آبادی!“ اس اعلان کے ساتھ ہی ایک شور بلند ہوا، جگر نے بڑے تحمل کے ساتھ مجمع کی طرف دیکھا۔ ”آپ لوگ اپنی نفرت کا نشانہ کسے بنا رہے ہیں٬ مجھے یا خدانخواستہ اس نعت کو، جس کے پڑھنے کی سعادت مجھے ملنے والی ہے اور آپ سُننے کی سعادت سے محروم ہونا چاہتے ہیں۔“ مجمعے کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔

 

بس یہی وہ وقفہ تھا جب جگر کے ٹوٹے ہوئے دل سے یہ صدا نکلی ہے:

 

اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ

ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ —-

 

جو جہاں تھا ساکت ہو گیا۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی زبان سے شعر ادا ہو رہا ہے اور قبولیت کا پروانہ عطاء ہو رہا ہے۔ نعت کیا تھی گناہگار کے دِل سے نکلی ہوئی آہ تھی، خواہشِ پناہ تھی، آنسوؤں کی سبیل تھی، بخشش کا خزینہ تھی۔ وہ خود رو رہے تھے اور سب کو رُلا رہے تھے، دل نرم ہو گئے، اختلاف ختم ہو گئے، رحمتِ عالم کا قصیدہ تھا، بھلا غصے کی کھیتی کیونکر ہری رہتی۔

 

”یہ نعت اس شخص نے کہی نہیں ہے، اس سے کہلوائی گئی ہے۔“ مشاعرے کے بعد سب کی زبان پر یہی بات تھی۔ اس نعت کے باقی اشعار یوں ہیں:

 

دامان نظر تنگ و فراوانیِ جلوہ

اے طلعتِ حق طلعتِ سلطانِ مدینہ

 

اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق

تو خلد ہے تو جنت ِسلطان مدینہ

 

اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت

دیکھوں میں درِ دولتِ سلطانِ مدینہ

 

اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظرِ دید

صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ

 

کونین کا غم یادِ خدا ور شفاعت

دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ

 

ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی

یہ عالم شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ

 

اس امت عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا

نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ

 

کچھ ہم کو نہیں کام جگر اور کسی سے

کافی ہے بس اک نسبت ِسلطان مدینہ

 

جگر مراد آ بادی

 

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here